سفینہ و ساحل-کشتی و طوفاں

احسانِ ناخدا نہ ، گوارا ہوا ہمیں

غیرت میں آ کے خود ہی ، سفینے ڈبو دئے

سیف

اف وہ کشتی جو ہوئی ، غرق کنارے آکر

آہ وہ منظرِ ساحل ، کہ جو طوفاں نکلا

ابر احسنی

طوفان کر رہا تھا ، مرے عزم کا طواف

دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے

نامعلوم

اس میں بھی ناخداؤں کی ، سازش کا ہاتھ ہے

طوفاں ہے منتظر مرا ، ساحل کے آس پاس

اشوک ساہنی