اشک-آنسو

اشک بہہ کے مرے ، خاک پہ جب گرنے لگے

میں نے تجھ کو ترے دامن کو ، بہت یاد کیا

خمار

اک اشک نکل آیا ، یوں دیدۂ تر سے

جس طرح جنازہ کوئی ، نکلے مرے گھر سے

خمار

زندگی آنسؤوں کا ، جام سہی

ہنس کے پینا کوئی ، مذاق نہیں

شفق

دل شکستہ ہو ، نکل آتے ہیں اکثر آنسو

مے ٹپک پڑتی ہے ، ٹوٹے ہوئے پیمانے سے

بیدل عظیم آبادی

یہ جو کچھ اشک میں ، دامن میں لئے پھرتا ہوں

زندگی بھر کی وفاؤں ، کا صلہ ہے یارو

نصرت گوالیاروی

سنگ دل! اشک جو پلکوں پہ لرزتا ہے تری

یہ وہ پانی ہے کہ جو ، توڑ کے پتھر نکلا

تمنا سیتاپوری

کیسے کٹے گی ہجر کی ، اتنی طویل رات

آنسو بھی اب تو ، دیدۂ تر میں بہت نہیں

عمر انصاری

اس میں پنہاں ہیں شکر کے جذبات

یہ تو جاناں ، خوشی کے آنسو ہیں

اشوک ساہنی