پھول اور کانٹے

کتنے عروج پہ بھی ہو ، موسم بہار کا

ہے پھول بس وہی ، جو سرِ زلفِ یار ہو

عدم

چمن کا حسن سمجھ کر ، سمیٹ لائے تھے

کسے خبر تھی کہ ہر پھول ، خار نکلے گا

نامعلوم

جب پڑا وقت چمن پہ ، تو لہو ہم نے دیا

اب بہار آئی تو کہتے ہیں ، ترا کام نہیں

نامعلوم

پھولوں کے ساتھ ساتھ ہیں ، حقدار خار بھی

تنہا گلوں کا ہی نہیں موسم بہار کا

نامعلوم

بھلا کیوں نہ کانٹوں کو ، دل سے لگائے

وہ جس نے گلوں سے بھی ، ہوں زخم کھائے

نامعلوم

ان آبلوں سے پاؤں کے ، گھبرا گیا تھا میں

دل خوش ہوا ہے راہ کو ، پرخار دیکھ کر

نامعلوم

لو ہم بتائیں ، غنچہ و گل میں ہے ، فرق کیا

اک بات ہے ، کہی ہوئی ، اک بے کہی ہوئی

آغا شاعر

مدتوں میں نے لگایا تھا ، جنہیں سینہ سے

آج وہ خار کی مانند ، چبھے جاتے ہیں

اشوک ساہنی