شمع و پروانہ

یہ آگ اور نہیں دل کی آگ ہے ناداں

چراغ ہو کہ نہ ہو ، جل بجھیں گے پروانے

مجروح سلطانپوری

رات بھر شمع جلاتا ہوں ، بجھاتا ہوں سراجؔ

بیٹھے بیٹھے یہی شغلِ شبِ تنہائی ہے

سراج لکھنوی

اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح

میں نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح

ناطق لکھنوی

رخِ روشن کے آگے شمع رکھ کے وہ یہ کہتے ہیں

ادھر جاتا ہے ، دیکھیں یا ادھر آتا ہے پروانہ

داغ دہلوی

خود ہی پروانے جل گئے ورنہ

شمع جلتی ہے روشنی کے لئے

صنم پرتاپ گڑھی

رخِ روشن میں ترا دیکھ کے جی اٹھتا ہوں

مجھ کو آتا نہیں پروانے کی صورت جلنا

اشوک ساہنی