شمع و پروانہ

ذرا سی جان ہے پر دل جگر پروانے کا دیکھو

کہ جلتی آگ میں کس شوق سے گر گر کے جلتا ہے

امیر مینائی

وہ بزم دیکھی ہے میری نگاہ نے کہ جہاں

بغیر شمع بھی جلتے رہے ہیں پروانے

نامعلوم

جل بجھا وہ شمع پر ، میں مر مٹا اس رشک میں

موت پروانے کی تھی ، یا موت کا پروانہ تھا

جوش ملیح آبادی

یہ اپنے دل کی لگی کو بجھانے آتے ہیں

پرائی آگ میں جلتے نہیں ہیں پروانے

مخمور دہلوی

زندگی کا ایک ہی مقصد ہے یعنی سوزِ غم

رات بھر جلنے کی خاطر ، شمع محفل میں رہی

مخمور دہلوی

لگی دل کی بجھانے کے لئے جلنا ہی پڑتا ہے

نہیں تو شمع کے نزدیک پروانے کہاں جاتے

مخمور دہلوی

اگر تم شمعِ محفل بن کے آ جاؤ گے محفل میں

تو اپنی آگ میں جلنے کو پروانے بھی آئیں گے

مخمور دہلوی

تیرگی بڑھنے لگی اپنی حدوں سے آگے

مشعلیں دن میں جلاؤ تو کوئی بات بنے

اشوک ساہنی