آشیاں-آشیانہ

چار تنکے ہی سہی صیاد

میری دنیا تھی آشیانے میں

قیصر

اک شاخِ سر نگوں پر رکھ لیں گے چار تنکے

نہ بلند شاخ ہوگی ، نہ جلے گا آشیانہ

اقبال

ہم نے بنا لیا ہے نیا پھر سے آشیانہ

جاؤ یہ بات پھر کسی طوفان سے کہو

قتیل شفائی

بجلی کی گود ہی مَیں ، بنا لوں نہ آشیانہ

کب تک چمن کو ، روز بچایا کرے کوئی

صبا عظیم آبادی

کیا آ گیا خیال دلِ بےقرار میں

خود آشیاں کو آگ لگا دی بہار میں

جگر

اس کی آمد سے مرے گھر میں بہار آتی ہے

وہ جو چاہے تو مرے گھر کو بھی ویرانہ بنا دے

اشوک ساہنی