آشیاں-آشیانہ

ہم نے اپنے آشیانے کے لئے

جو چبھیں دل میں ، وہی تنکے چنے

وحیدالدین وحید

نہ گل اپنا ، نہ خار اپنا ، نہ ظالم باغباں اپنا

بنایا آہ! کس گلشن میں ، ہم نے آشیاں اپنا

نظیر اکبرآبادی

مرے خیال میں دنیا اجڑ گئی میری

ترے خیال میں تنکے تھے آشیانے کے

داغ دہلوی

برق کیا برباد کر سکتی ہے میرا آشیاں

بلکہ یوں کہئے کہ روشن آشیاں ہو جائے گا

آسی

لاؤں کہاں سے وہ تنکے آشیانے کے لئے

بجلیاں بیتاب ہوں جن کو جلانے کے لئے

اقبال

بال و پر تو ہیں ، مگر یہ حال ہے

آشیانے تک اڑا جاتا نہیں

جوش ملیح آبادی

کیسے کیسے چمن میں جلے آشیاں

اور بہارِ چمن مسکراتی رہی

شمیم جےپوری

کیا کسی کی آنکھ میں پانی نہیں تھا اے اشوک!

سب کھڑے تھے ہاتھ باندھے آشیاں جلتا رہا

اشوک ساہنی