دل

دیدنی ہے شکستگی دل کی

کیا عمارت ، غموں نے ڈھائی ہے

میر

گل سے بھی نازک بدن ہے ، اس کا لیکن دوستو

یہ غضب کیا ہے کہ دل ، پہلو میں پتھر کا بنا

نامعلوم

ہے کس کا جگر جس پہ یہ بیداد کرو گے

لو ہم تمہیں دل دیتے ہیں ، کیا یاد کرو گے

جرأت لکھنوی

زندگی ہی ، اجڑ گئی ، اے دل

ہم کہاں ، کس نگر میں ، جا کے بسیں

فراق

اس کا رونا نہیں ، کیوں تم نے کیا ، دل برباد

اس کا غم ہے کہ بڑی دیر میں برباد کیا

جوش ملیح آبادی

وہ خوشیاں ہوں کہ غم تجھ کو سدا ہم یاد رکھتے ہیں

عمارت دل کی یادوں سے تری آباد رکھتے ہیں

اشوک ساہنی