یاد

اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی

یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں

فراق

آہ وہ یاد کہ جس یاد سے ہو کر مجبور

دلِ مایوس نے مجھ کو بھی بھلا رکھا ہے

حسرت

رات یوں دل میں ،تری ، کھوئی ہوئی یاد آئی

جیسے ویرانہ میں چپکے سے بہار آ جائے

فیض

دل تھا کسی کی یاد میں مصروف اور ہم

شیشہ میں زندگی کو اتارے چلے گئے

شکیل

رنج و غم ، درد و الم ، یاس و تمنا ، حسرت

اک تری یاد کے ہونے سے ، ہے کیا کیا دل میں

جوش ملسیانی

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں

ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

فراق

یاد آتا ہے مجھے جب بھی تبسم تیرا

دیر تک جلتے چراغوں کا سماں رہتا ہے

نریش کمار شاد

اتنا غمِ حیات نے مایوس کر دیا

اب تو تمہاری یاد بھی آتی نہیں مجھے

اشوک ساہنی