آنکھ

اور بھی میرے لئے آفت کا ساماں ہو گئیں

ہائے وہ مخمور آنکھیں جو پشیماں ہو گئیں

جگر

میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں

ساری مستی شراب کی سی ہے

میر

ضبط کر اے دل ، وہ آنسو جو کہ چشمِ تر میں ہے

کچھ نہیں بگڑا ابھی کہ گھر کی دولت گھر میں ہے

نامعلوم

پلکوں کی حد کو توڑ کے دامن میں آ گرا

اک اشک صبر کی توہین کر گیا

نامعلوم

بند تھی آنکھیں کسی کی یاد میں

موت آئی اور دھوکا کھا گئی

نامعلوم

تصویر سی کھنچ جاتی ہے بند کرتے ہی آنکھیں

مجھ سا بھی مصور کوئی دنیا میں ہوا کیا

اشوک ساہنی

روک لے اے آنکھ! جو آنسو کہ چشمِ تر میں ہیں

کچھ نہیں بگڑا ہے اب تک ، گھر کی دولت گھر میں ہے

نامعلوم

شبِ وصل کیا مختصر ہو گئی

ذرا آنکھ جھپکی سحر ہو گئی

نامعلوم