انتظار-منتظر

خیال ہی نہیں آیا نہ آنے کا ترے

کچھ اس خلوص سے ہم محوِ انتظار رہے

عدم

یہ تو مہلت ہے ، جسے کہیں ہیں عمر

دیکھو تو انتظار سا ہے کچھ

میر

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا

مرزا غالب

بےخودی لے گئی کہاں ہم کو

دیر سے انتظار ہے اپنا

میر

کچھ روز یہ بھی رنگ رہا انتظار کا

آنکھ اٹھ گئی جدھر بس ، ادھر دیکھتے رہے

اثر

تمام عمر ترا انتظار کر لیں گے

مگر یہ رنج رہے گا ، کہ زندگی کم ہے

شاہد صدیقی

قربان اک ادائے تغافل پہ لاکھ بار

وہ زندگی جو صرف ہوئی انتظار میں

اشاک ساہنی

اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہوں شبِ ہجر میں اشوکؔ

یہ انتظار اس کا قیامت سے کم نہیں

اشوک ساہنی