انسان-انسانیت-بشر

بس یہی دوڑ ہے ، اس دور کے انسانوں کی

تری دیوار سے ، اونچی مری دیوار بنے

حفیظ میرٹھی

اس خدا کی تلاش ہے انجمؔ

جو خدا ہو کے آدمی سا لگے

انجم

اس کو انساں مت سمجھ ، ہو سرکشی جس میں ظفرؔ

خاکساری کے لئے ہے ، خاک سے انساں بنا

ظفر

ہزاروں خضر پیدا کر چکی ہے ، نسل آدم کی

یہ سب تسلیم لیکن ، آدمی اب تک بھٹکتا رہا

فراق

بندہ سے ہے کیوں ، پرسشِ اعمال الٰہی!

انسان کو رہتی ہے ، کہاں اپنی خطا یاد

داغ دہلوی

ڈھونڈھا بہت نظر نہیں آیا مجھے اشوکؔ

لگتا ہے میرے عہد کا انسان مر گیا

اشوک ساہنی