اشک-آنسو

آنسو کو مرے کھیل ، تماشا نہ سمجھنا

پتھر بھی تو کٹ جاتا ہے ، ہیرے کی کنی سے

فراق

بہتے ہوئے اشکوں پر ، جب غور کیا میں نے

ہر اشک میں ان کی ہی ، تصویر نظر آئی

نامعلوم

آنسو مرے ہنس ہنس کے نہ ، دیکھ آج خدارا

اے دوست! یہ آنسو نہیں ، ہنسنے کی سزا ہے

شمیم جونپوری

آنسؤوں سے مٹ نہیں سکتی جلن

گھر مرا برسات میں ، جلتا رہا

جیا لال

ہم رونے پہ آ جائیں ، تو دریا ہی بہا دیں

شبنم کی طرح سے ہمیں ، رونا نہیں آتا

ذوق

جانِ تنہا پہ گزر جائیں ہزاروں صدمے

آنکھ سے اشک رواں ہوں ، یہ ضروری تو نہیں

ساحر

بڑے نادان تھے ، وہ چند آنسو

جو اتنی سادگی سے ، بہہ گئے ہیں

عدم

تھا فلک بھی ، شریکِ غم میرا

لوگ کہتے ہیں ، اشک کو شبنم

اشوک ساہنی