دوست دشمن

کوئی دل ٹوٹا تو نکلی یہ صدا

دوستی کا بس یہی انجام ہے

جوش ملسیانی

یہ فتنہ آدمی کا ، خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے ، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

مرزا غالب

نہ شکوہ رفیق سے ہے ، نہ شکایت رقیب سے

جو کچھ ہوا ، خدا سے ہوا ، یا نصیب سے

نامعلوم

دوستوں کا ہائے اندازِ خلوص

دشمنی بھی دل پکڑ کر رہ گئی

اشوک ساہنی