اشوک ساہنی کے نئے اشعار

پھول دو چار جو چننا ہیں چمن سے چن لے

رنگ کی بات نہ کر رنگ اتر جاتے ہیں

ساری مایوسیاں چھوڑدو

اپنے اوپر بھروسہ کرو

جو بھی حال پوچھے گاآنسوؤں سے رولوں گا

تیرے شہر والوں سے جھوٹ کیسے بولوں گا

خموشی ، وضع داری، سادگی مردوں کے زیور ہیں

مگر حد سے زیادہ بے کسی اچھی نہیں لگتی

اب تجھے دیکھ کر کسے دیکھوں

تو مرا آئینہ سا لگتا ہے

یہ کھری بات مری ماں نے بتائی ہے مجھے

پاک روزی ہو تو کھانے میں مزہ ہوتا ہے

ساتھ تقدیر نے جب چھوڑ دیا

کوئی پیشہ، نہ ہنر یاد آیا

سورج کے آگے شمع جلانے سے فائدہ

رکھو وہاں چراغ جہاں روشنی نہیں

جسم مردہ ہے اگر بے روح ہے

شخصیت ہے عظمت کردار سے

میں نے گھر گھر میں جلائے ہیں محبت کے چراغ

خود اندھیروں میں گھرا ہوں کیا کروں