شمع و پروانہ

اے شمع! یوں پروانہ کو ہنس ہنس کے جلانا

کیا ہو جو تجھے بھی کوئی پروانہ بنا دے

سیماب

کہہ دو یہ شمع سے کہ عبث ہے تو اشکبار

پانی سے دل کی آگ بجھائی نہ جائے گی

جلیل

یوں تو جل بجھنے میں دونوں ہیں برابر لیکن

وہ کہاں شمع میں ، جو آگ ہے پروانے میں

جلیل

شمع بھی جلتی ہے پروانہ بھی جلتا ہے مگر

ہے کہاں وہ شمع میں ، جو سوز پروانے میں ہے

جلیل

شمع کی مانند ہم اس بزم میں

چشمِ نم آئے تھے ، تر دامن چلے

درد

اہلِ جنوں کو تاب کہاں سوزِ حسن کی

جلتے ہی شمع ، خاک میں پروانہ مل گیا

شکیل

جان دینے کا طریقہ اور بھی تھا عشق میں

شمع کی محفل میں کیوں جلنے کو پروانہ گیا

ہیرا لال فلک

عمر بھر شمع کی مانند جلایا دل کو

پھر بھی دنیا کو شکایت ہے اجالا کم ہے

اشوک ساہنی