شمع و پروانہ

شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لئے

ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں

قتیل

مجھ سے وہ کہتے ہیں پروانے کو دیکھا تو نے

دیکھ یوں جلتے ہیں ، اس طرح سے دم دیتے ہیں

داغ دہلوی

اے شمعِ صبحِ محفل ، ان کو جلا کے بجھنا

دو چار اور تیرے پروانے رہ گئے ہیں

بسمل سعیدی

حسن بھی کمبخت کب خالی ہے سوزِ عشق سے

شمع بھی تو رات بھر جلتی ہے پروانوں کے ساتھ

بسمل سعیدی

مرتے مرتے شمع سے پروانے نے کیا کہہ دیا

شمع خود بھی جل بجھی ہے ، سن کے پروانے کی بات

رتن پنڈوری

رات بھر آتشِ حسرت سے جلا کرتی ہے

شمع پر صبر پڑا ہے کسی پروانے کا

جلیل

اے شمع! تیری عمرِ طبیعی ، ہے اک رات

ہنس کر گزار یا اسے ، رو کر گزار دے

نامعلوم

سرخرو پروانہ ٹھہرا ، امتحانِ عشق میں

شمع بھی یوں تو جلی ، لیکن دکھاوے کے لئے

اشوک ساہنی