اشوک ساہنی کے نئے اشعار

ہے ازل سے بے حجابی عشق کے دستور میں

شرم کیسی، کیسا پردہ عاشق دلگیر سے

سرخرو پروانہ ٹھہرا امتحان عشق میں

شمع بھی یوں تو جلی لیکن دکھاوے کے لئے

بھیس تو کوئی بدل سکتا ہے دیوانوں سا

حوصلہ چاہئے پر عشق میں پروانوں سا

دریائےمحبت میں اک ڈوبنے والے کو

ہوتا ہے بہت یارو تنکے کا سہارا بھی

میں کروں بھی تو گلا کس سے کروں

مجھ کو میری حیات نے مارا

کیا کسی بھی آنکھ میں پانی نہیں تھا اے اشوک

سب کھڑے تھے ہاتھ باندھے آشیاں جلتا رہا

اس میں بھی ناخداؤں کی سازش کا ہاتھ ہے

طوفاں ہے منتظر مرا ساحل کے آس پاس

خو ہے خاروں کی خار کھانے کی

گل کی عادت ہے مسکرانے کی

مفلسی نے جان پر چرکے لگائے اس قدر

مفلسی شرما رہی ہے مفلسی کے نام پر

جا رہے ہو گر نگاہیں پھیر کر

یہ شکستہ دل بھی لیتے جائیے