اشوک ساہنی کے نئے اشعار

مدتوں میں نے لگایا تھا جنہیں سینے سے

آج وہ خار کی مانند چبھے جاتے ہیں

کس زباں سے شکر میں تیرا کروں

شیخ بھی بت کو خدا کہنے لگے

اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا

پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا

توبہ نے اور مے کا طلب گار کردیا

کالی گھٹا نے مجھ کو گناہ گار کردیا

بس اچانک اٹھ گئی تھی اس کی جانب اک نظر

اس نے مجھ کو بھی گناہگاروں میں شامل کردیا

آج کے انساں بھی یارو کس قدر مایوس ہیں

چابیوں سے چل رہے ہیں منزلیں معدوم ہیں

حور و غلمان کی جنت کی کہانی سوجھی

حضرت شیخ کو پیری میں جوانی سوجھی

وہ روٹھ گیا مجھ سے کہ دل روٹھ گیا

اب دل میں کسی بات کا ارمان نہیں ہے

بس یہی حسرت ہے دل کی آخری

وہ جو آجائے تو آنکھیں موند لوں

ہوگیا شہر کھنڈر خانہ دل کی مانند

زلزلہ ہے کہ کسی شوخ کی انگڑائی ہے