اشوک ساہنی کے نئے اشعار

تاکہ چھو لے اسے ہر اک بچہ

ہر کلی نے جھکا دی شاخ اپنی

پھولوں کی سمت جاتی ہے کانٹوں کی رہ گزر

گر پھول ہیں عزیز تو کانٹوں پہ کر بسر

ہم لگالیتے ہیں کانٹوں کو بھی دل سے اپنے

لوگ بے رحم ہیں پھولوں کو مسل دیتے ہیں

وعدے پہ اپنے خواب میں آتے تو وہ ضرور

جب نیند ہی نہ آئے تو انکا ہے کیا قصور

یاد بھی ان کی مجھ سے بہت دور ہے

میں بھی مجبور ہوں، دل بھی مجبور ہے

زمانے نے لگائیں لاکھ ہم پر بندشیں لیکن

سر محفل مری نظروں نے ان سے گفتگو کرلی

شاید ترے کلام سے ملتا نہ وہ سکوں

مجھ کو تری نگاہ نے خوشحال کردیا

تو مجھ میں سماگیا ہے ایسے

تری چپ بھی سنائی دے جیسے

اتنا غم حیات نے مایوس کردیا

اب تو تمہاری یاد بھی آتی نہیں مجھے

خواب بن جاؤ تم اگر میرا

میں آنکھیں عمر بھر نہ کھولوں