اشوک ساہنی کے نئے اشعار

ڈھونڈھا بہت نظر نہیں آیا مجھے اشوک

لگتا ہے میرے عہد کا انسان مرگیا

کیا لذت گناہ سے واقف نہیں ہے شیخ

فطرت میں ہے گناہ تو انسان کیا کرے

غم و خوشی میں ہمیشہ خدا جو یاد رہے

تو گھر کے کانٹوں میں بھی انسان دل سے شاد رہے

بخشیں خدا نے جس کو زمانے کی نعمتیں

وہ خوش نہ رہ سکے تو کوئی اس کا کیا کرے

مہکنے لگے جس سے دنیا کا گلشن

خدا سے وہ امن و سکوں مانگتا ہوں

ہوش و حواس یاد میں ان کی گنوادیئے

اب امتیاز شمع و سحر بھی نہیں مجھے

لکھا تقدیر میں جو ہے، نہ ہو ، کیسے یہ ممکن ہے

لکھی تقدیر میں پیری ، تو پھر میری کہاں سے ہو

تیری تصویر بنائی تو تھی آنکھوں میں

بہہ کے اشکوں نے مٹادی ہوگی

وفا کرو نہ کرو مجھ سے یہ سکوں تو ہے

کہ تم کسی کے لئے بھی ہو با وفا تو ہو

جگا کر ضمیر اپنا، ہر روز سوچو

وراثت میں بچوں کو کیا دے رہے ہو