ڈھونڈھا بہت نظر نہیں آیا مجھے اشوک
لگتا ہے میرے عہد کا انسان مرگیا
کیا لذت گناہ سے واقف نہیں ہے شیخ
فطرت میں ہے گناہ تو انسان کیا کرے
غم و خوشی میں ہمیشہ خدا جو یاد رہے
تو گھر کے کانٹوں میں بھی انسان دل سے شاد رہے
بخشیں خدا نے جس کو زمانے کی نعمتیں
وہ خوش نہ رہ سکے تو کوئی اس کا کیا کرے
مہکنے لگے جس سے دنیا کا گلشن
خدا سے وہ امن و سکوں مانگتا ہوں
ہوش و حواس یاد میں ان کی گنوادیئے
اب امتیاز شمع و سحر بھی نہیں مجھے
لکھا تقدیر میں جو ہے، نہ ہو ، کیسے یہ ممکن ہے
لکھی تقدیر میں پیری ، تو پھر میری کہاں سے ہو
تیری تصویر بنائی تو تھی آنکھوں میں
بہہ کے اشکوں نے مٹادی ہوگی
وفا کرو نہ کرو مجھ سے یہ سکوں تو ہے
کہ تم کسی کے لئے بھی ہو با وفا تو ہو
جگا کر ضمیر اپنا، ہر روز سوچو
وراثت میں بچوں کو کیا دے رہے ہو
نفرتیں دل سے مٹاؤ تو کوئی بات بنے
پیار کی شمعیں جلاؤ تو کوئی بات بنے
نیکی بدی کی اب کوئی میزان ہی نہیں
ایماں کی بات یہ ہے کہ ایمان ہی نہیں
شمع اخلاص و یقیں دل میں جلا کر چلئے
ظلمت یاس میں امید جگا کر چلئے
رسم الفت جہاں میں عام کرو
پیار سے دشمن کو رام کرو
اس کو غرور حسن نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا
منزلِ صدق و صفا کا راستہ اپنائیے
کاروانِ زندگی کے رہنما بن جائیے
پلکوں پہ انتظار کا موسم سجا لیا
اس سے بچھڑکے روگ گلے سے لگا لیا
پتھر ہی رہنے دیجئے شیشہ نہ کیجئے
احباب سے وفا کا تقاضا نہ کیجئے
یہ شنکھ یہ اذان سلامت رہے تو اچھا ہے
وطن کی شان سلامت رہے تو اچھا ہے
جو ضروری ہے کار کر پہلے
شکرِ پروردگار کر پہلے
جو بھی دیتا ہے وہ بندے کو خدا دیتا ہے
پیڑ کا سایہ بھلا پیڑ کو کیا دیتا ہے