اشوک ساہنی کے نئے اشعار

شہر میں ٹھیک نہیں بم کے دھماکے ہر روز

جنگ کو جنگ کے میدان میں رکھا جائے

لوگ کترا کے گزر جاتے ہیں

جانے کیا جرم ہوا ہے مجھ سے

نہ جانے لکھ دیا کیا موسموں نے

مرا چہرہ تماشا بن گیاہے

دکھ تو یہ ہے اس دنیا نے

زہر کا نام دوا رکھا ہے

کہاں جاؤں بتا اے وحشت دل

یہ صحرا مجھ کو گھر لگنے لگا ہے

چھو نہیں سکتی انہیں دھوپ زمانے کی کبھی

جن پر اللہ ترا ابر کرم ہوتا ہے

دلوں میں نرمیاں باقی نہیں ہیں

زبان و لفظ خنجر بن چکے ہیں

پرچھائیاں بھی گھر کے اندھیرے میں کھو گئیں

اب اور جاگنے سے کوئی فائدہ نہیں

دیکھ کر ایک زمانہ جسے تعریف کرے

ایسا کردار زمانے کو دکھایا جائے

اشوک اب یہ زمانہ کچھ بھی سمجھے

مجھے تو زندگی اچھی لگی ہے