اشوک ساہنی کے نئے اشعار

آتے نہیں ہیں تنگ کبھی، زندگی سے ہم

نزدیک غم کو رکھتے ہیں ، اپنی خوشی سے ہم

اب موت سے بھی ساہنی، ڈرتے نہیں ہیں ہم

جب سے غم حیات کو اپنا بنا لیا

ہم تو خوشبو ہیں ، اگر ساتھ ہوا کا، مل جائے

دوست تو دوست ہیں، دشمن کے بھی ، گھر جائیں گے

غم سے ناطہ توڑ کر اے دل ، سدا پچھتائے گا

غم رفیق زندگی ہے، ساتھ تیرے جائےگا

دوستوں اور دشمنوں میں فرق بس جذبے کا ہے

دوست جب نفرت کریں گے غیر ہی کہلائیں گے

دشمنی ہوتی ہے آخر کار کیا

دوستی کا رخ پلٹ کر دیکھ لو

چاہتا ہے تو اگر دل سے سکون دائمی

اپنے دشمن کی بجائے دشمنی کو قتل کر

ایک مدت میں حقیقت یہ کھلی

دوستی کی انتہا ہے دشمنی

عدو پر اس قدر احسان پر احسان کرتا جا

کہ دشمن دوستی کرنے پہ خود مجبور ہوجائے

اپنوں نے اس قدر مجھے مایوس کردیا

شکوہ اب کسی سے نہیں مرے خدا مجھے