دوست دشمن

دشمنوں کا تو ذکر ہی کیا ہے

دوستوں سے بھی ڈر گئے ہیں ہم

نریش کمار شاد

لاکھوں فریب ، لاکھوں ستم ، لاکھوں حادثات

دولت یہی ہوئی ہے ، اعزا سے دستیاب

غلام ربانی تاباں

ہزاروں دشمنوں کی دشمنی سے

تمہاری دوستی بھی کم نہیں ہے

بسمل سعیدی

ہمیں جب بھی دھوکا دیا دوستوں نے

ہمیں اپنے دشمن بہت یاد آئے

نریش کمار شاد

قتیلؔ اپنا مقدر غم سے بیگانہ اگر ہوتا

تو پھر اپنے پرائے ہم سے پہچانے کہاں جاتے

قتیل شفائی

مصیبت گر نہ بن جاتی کسوٹی آزمائش کی

تو پھر یہ دوست دشمن ہم سے پہچانے کہاں جاتے

قتیل شفائی

مرے دل پر دوستوں کا ہی نہیں

دشمنوں کا بھی بڑا احسان ہے

نامعلوم

چاہتا ہے تو اگر دل سے سکونِ دائمی

اپنے دشمن کی بجائے دشمنی کو قتل کر

اشوک ساہنی