اشوک ساہنی کے نئے اشعار

ہائے اس کافر کے دست ناز سے

شیخ جی پیتے ہی انساں ہوگئے

ختم ہوتی جارہی ہے آدمیت شہر سے

خصلتیں دیکھو تو انساں بھیڑیئے سے کم نہیں

زندگی میں اس قدر صدمے سہے

دل پگھل کو آنکھ سے بہنے لگا

تھا فلک بھی شریک غم میرا

لوگ کہتےہیں اشک کو شبنم

اس میں پنہاں ہیں شکر کے جذبات

یہ تو جاناں خوشی کے آنسو ہیں

اس سے بڑھ کر کوئی بھی نشہ نہیں

ضبط غم میں آنسوؤں کو پی گیا

ہے مرے لب پہ تبسم رقصاں

یہ الگ بات ہے دل روتا ہے

آگ پنہاں تھی مرے اشکوں میں

آپ سمجھے تھے آب کے قطرے

غم تو غم ہے خوشی میں بھر آئے

مجھ کو اشکوں پہ اعتبار نہیں

میں عبادت سمجھ کے پیتا تھا

توبہ کرکے گناہ کربیٹھا