شمع و پروانہ

یہ کچھ نہیں کھلا کہ جلی شمع کس لئے

اتنا سنا کہ خاک میں پروانہ مل گیا

آسی لکھنوی

پھونک دیتی کیوں نہ پروانہ کو شمع

پیار کرنے کو سرِ محفل گیا

امیر

نام کو بھی نہ کسی آنکھ سے آنسو نکلا

شمع محفل میں جلاتی رہی پروانے کو

اشک

گر پڑا آگ میں پروانہ ، دمِ گرمیٔ شوق

سمجھا اتنا بھی نہ کمبخت ، کہ جل جاؤں گا

ذوق

خود بھی جلتی ہے اگر ، اس کو جلاتی ہے یہ

کم کسی طرح نہیں ، شمع بھی پروانے سے

محروم

جس بزم میں وہ رخ سے اٹھا دیتے ہیں پردہ

پروانہ وہاں شمع پہ مائل نہیں ہوتا

امیر مینائی

ہٹ گئی ہے رخِ روشن سے تمہارے جو نقاب

رات بھر شمع سے نفرت رہی پروانے کو

امیر مینائی

چاہے ہر سو ہو مسلط ، شبِ ظلمت پھر بھی

ہم کو کرنی ہے اجالوں کی حفاظت پھر بھی

اشوک ساہنی